دریائے سوات میں ڈوبنے والے معصوم لوگ اور ہماری اجتماعی غفلت

دریائے سوات کی خوبصورتی کے پیچھے چھپی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو ہر سال کئی گھرانوں کو اجاڑ دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دریائے سوات میں ڈوبنے والے معصوم افراد کی ویڈیوز اور خبریں ایک بار پھر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے آ گئی ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو آخری لمحے تک بے بسی کی تصویر بنے، پانی کی لہروں سے لڑتے رہے اور دل میں یہ امید لیے کہ شاید کوئی آ کر انہیں بچا لے گا۔ مگر افسوس! وہ لمحے صرف امیدوں میں ہی گزر گئے۔

کس کی ذمہ داری تھی؟

سوال یہ نہیں کہ وہ لوگ کیوں ڈوبے، سوال یہ ہے کہ انہیں بچانے والا کوئی کیوں نہ تھا؟ ہر سال گرمیوں میں ہزاروں سیاح دریائے سوات کا رخ کرتے ہیں، مگر مقامی انتظامیہ کی جانب سے نہ تو ریسکیو ٹیموں کا مستقل بندوبست ہوتا ہے، نہ ہی انتباہی بورڈز اور حفاظتی اقدامات۔ ریسکیو کے ادارے یا تو موجود ہی نہیں ہوتے یا پھر دیر سے پہنچتے ہیں — جب سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

جان بچانا سب سے بڑا فریضہ ہے

اسلام اور انسانیت دونوں ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ تو پھر ہم کیوں اس بنیادی فریضے میں ناکام ہو رہے ہیں؟ کیا ہم صرف تصویریں کھینچنے اور ویڈیوز بنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں یا کسی کی جان بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں؟

حل کیا ہے؟

  1. مقامی حکومت کی فوری توجہ: خطرناک مقامات پر ریسکیو اسٹیشنز، لائف گارڈز، اور واٹر سیفٹی بورڈز کی تنصیب ضروری ہے۔
  2. عوامی آگاہی: لوگوں کو دریا کے قریب جانے، نہانے یا سیلفی لینے کے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔
  3. سیاحتی ضابطے: سیاحت کے لیے محفوظ مقامات مقرر کیے جائیں اور خطرناک علاقوں میں داخلے پر پابندی لگائی جائے۔
  4. میڈیا کا کردار: میڈیا صرف خبر نہ بنائے بلکہ اس پر مسلسل توجہ دے کر پالیسی سازوں کو ایکشن لینے پر مجبور کرے۔

آخر میں

یہ سطور صرف ایک دکھ بھرے واقعے پر ماتم نہیں، بلکہ ایک اجتماعی پکار ہے — کہ آئندہ کوئی معصوم دریا کی بے رحم موجوں کا شکار نہ ہو۔ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ سیاحت، خوبصورتی اور فطرت کی تعریف اپنی جگہ، مگر انسانی جان سب سے قیمتی ہے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *